سورہ فاطر
سباء | سورۂ فاطر | یس | |||||||||||||||||||||||
![]() | |||||||||||||||||||||||||
|
سورہ فاطر یا ملائکہ قرٓن پاک کی پینتیسویں35ویں سورت ہے جو قرآن کے 22 ویں پارے میں واقع ہے نیز یہ مَکّی سورتوں میں سے ہے۔ حمد الہی سے شروع ہونے کی وجہ سے اس سورے کو حامدات میں سے قرار دیتے ہیں۔ سورہ فاطر میں معاد، قیامت کے حالات، کافروں کی ندامت و پشیمانی بیان ہوئی ہے نیز دنیا کے ظواہری فریب اور انسان کو شیطانی وسوسوں سے ڈراتی ہے۔ اس سورے میں انعام الہی شمار ہوئے، تلاوت قرآن، اقامۂ نماز اور انفاق کو ایک ایسی تجارت کہا گیا ہے جس میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہے۔
اس سورے کی مشہور آیات میں سے پندرھویں ( 15ویں) آیت ہے جس میں خدا کی بے نیازی بیان ہوئی ہے اور لوگوں کو خدا کا نیازمند کہا گیا ہے۔ اٹھارھویں آیت عدل الہی اور قیامت کے روز اس کی شدید پکڑ کی بیان گر ہے۔اس سورے کی تلاوت کی فضیلت میں رسول اللہ سے روایت مروی ہے: جو اس سور کی تلاوت کرے گا قیامت کے روز جنت کے تین دروازے اسے اپنی جانب بلائیں گے وہ جس سے چاہے وارد بہشت ہو جائے۔
تعارف
- وجہ تسمیہ
این سورہ کو فاطر اور ملائکہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں نام سورے کی پہلی آیت سے لئے گئے ہیں۔[1] اس آیت میں «فاطر» خالق اور زمین آسمان کے پروردگار کے معنا میں ہے۔[2]
- مقام اور ترتیب نزول
سورہ فاطر سورہہای مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے لحاظ سے تینتالیسواں (43واں) سورہ ہے کہ جو پیامبر(ص) پر نازل ہوا ہے۔ قرآن کی موجودہ ترتیب میں یہ سورت پینتیسویں نمبر پر ہے۔[3] و در جزء بیستودوم جای دارد.
- تعداد آیات و کلمات
فاطر کی پینتالیس (45) آیتیں، 780 کلمے اور 3228 کلمات ہیں۔ حامدات کہلانے والے سورتوں میں پانچواں اور آخری سورہ ہے کہ جو الحمدللہ یعنی خدا کی حمد دے شروع ہوتا ہے۔ حجم کے لحاظ سے سورہ فاطر مثانی سورے کا حصہ ہے اور قرآن کے حزب پر مشتمل ہے۔[4]
مضامین
انسانی زندگی کے مدبر خدا پر ایمان لانے کی ضرورت | |||||||||||||||||||||
تیسرا گفتار: آیہ ۳۶-۴۵ اللہ اور پیغمبر کی مخالفت پر مشرکوں کی ضد | دوسرا گفتار: آیہ ۱۸-۳۵ صرف متقی لوگ ہی اللہ اور پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں | پہلا گفتار: آیہ ۱-۱۷ انسانی زندگی کی تدبیر صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے | |||||||||||||||||||
پہلا مطلب: آیہ ۳۶-۳۸ قرآنی تعلیمات کی مخالفت کی سزا | پہلا مطلب: آیہ ۱۸ پیغمبر کے انذار کا مؤمنوں پر اثر | پہلا مطلب: آیہ ۱-۳ انسانی زندگی کا مدبر خدا ہے | |||||||||||||||||||
دوسرا مطلب: آیہ ۳۹ کافروں کا کفر ان کے ضرر میں ہے | دوسرا مطلب: آیہ ۱۹-۲۳ کافروں پر پیغمبر کی باتوں کا اثر نہ کرنا | دوسرا مطلب: آیہ ۴-۸ خدا کی ربوبیت کے انکار کی سزا | |||||||||||||||||||
تیسرا مطلب: آیہ ۴۰-۴۱ اللہ کا شریک قرار دینے میں مشرکوں کی لجاجت | تیسرا مطلب: آیہ ۲۴-۲۶ کافروں کا دائمی طریقہ پیغمبروں کو جھٹلانا | تیسرا مطلب: آیہ ۹-۱۷ اللہ کا انسانی زندگی کی تدبیر کے جلوے | |||||||||||||||||||
چوتھا مطلب: آیہ ۴۲-۴۳ پیغمبر پر ایمان لانے میں مشرکوں کا تکبر | چوتھا مطلب: آیہ ۲۷-۲۸ صرف اہل علم ہی اللہ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں | ||||||||||||||||||||
پانچواں مطلب: آیہ ۴۴-۴۵ مشرکوں کا اپنے آبا و اجداد کی عاقبت سے عبرت نہ لینا | پانچواں مطلب: آیہ ۲۹-۳۰ اللہ کی کتاب کی پیروی کرنے کا اجر | ||||||||||||||||||||
چھٹا مطلب: آیہ ۳۱-۳۲ برگزیدہ بندوں کا قرآنی حقایق سے فائدہ اٹھانا | |||||||||||||||||||||
ساتواں مطلب: آیہ ۳۳-۳۵ برگزیدہ بندوں کا اجر | |||||||||||||||||||||
سورہ فاطر دنیا کے ظاہری فریب، فتنوں اور شیطانی وسوسوں سے ڈراتی ہے، انسان کو فقیر اور خدا کو بے نیاز کہتی ہے۔ انسان نعمتوں کے ولی کو پہچنوانے اور اس کی شکر گزاری کرنے کی خاطر خدا کی بعض نعمتیں بیان ہوئی ہیں،[6] مثلا بارش کی نعمت، انتخاب زوج کا اختیار اور میٹھے اور کھارے پانی کے ذخیرے کہ جن سے لوگ فائدے حاصل کرت ہیں۔
اس سورے میں معاد اور قیامت کے بعض احوال، کافروں کی پشیمنای اور ندامت، کفار کے دنیا میں واپس لوٹ کر اپنے گذشتہ کے تلافی کرنے کی جانب اشارہ ہوا ہے۔[7] اسی طرح اس سورہ کی آیات میں مشرکوں، جھوٹے خداؤں اور ان کی ناتوانی کا تذکرہ ہوا ہے۔ تلاوت قرآن، اقامۂ نماز اور ظاہری اور مخفی انفاقِ کو ضرر کے بغیر تجارت کہا گیا ہے۔
تفسیر
لوگوں کی ہدایت کیلئے رسول اللہ کی کوشش
سورے کی آٹھویں آیت میں خدا رسول اللہ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: پس ان (بدبختوں) کے بارے میں افسوس کرتے کرتے آپ کی جان نہ چلی جائے۔ مفسرین اس آیت کے مفہوم کو سورہ شعراء کی تیسری آیت کی مانند سمجھتے ہیں[8] کہ جس میں خدا فرماتا ہے: شاید آپ (اس غم میں) جان دے دیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔[9] قرآن میں اس تعبیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیامبر اسلام(ص) کس قدر لوگوں کی نسبت شفیق اور دلسوز تھے نیز وہ اپنے رسالتی امور کی انجام دہی میں کس قدر سنجیدگی کے ساتھ پابند تھے۔[10]
ہدایت اور گمراہی
آٹھویں آیت میں آیا ہے:بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔اس آیت کے ظاہری معنا کی بنا پر انسان کی اختیار کی نفی ہوتی ہے لیکن امام ہادی کے اہواز کے لوگوں کے نام خط کہ جسے طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے، کو دیکھتے ہوئے اس آیت کے معنا کو دو طرح سے بیان کر سکتے ہیں:
- خدا اگر ہر کسی کو ہدایت یا گمراہ کرے تو اس صورت میں جزا و سزا کا کوئی معنا نہیں ہو گا جبکہ انسان کے اعمال کی جزا و سزا ہے۔
- خدا اپنے بندوں کی راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے مثلا سورہ فصلت کی سترھویں آیت؛[11] اس حالت میں بھی ان میں سے کسی کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ و اختیار میں ہے۔[12]
بعض مفسرین نے ہدایت و ضلالت (گمراہی) کے دو مرحلے بیان کئے ہیں:
پہلا مرحلہ: اس مرحلے میں خدا انسان کو مجبور نہیں کرتا ہے اور انسان اختیار رکھتا ہے
دوسرا مرحلہ: گمراہی اختیار کرنے کی صورت میں اس گمراہی پر مرتب ہونے والے آثار اور عقوبتیں اس مرحلے میں شامل ہیں۔ یہ آثار اور عقوبتیں فرمان خدا کے تابع ہیں۔ حقیقت میں یہ مسیر حق سے انسان کی نافر- مانی کا عکس العمل ہے۔ پس جن آیات میں گمراہی کے اختیار خدا میں ہونے کا کہا گیا ہے وہ یہ دوسری گمراہی ہے۔ اسی طرح ہدایت کے بھی دو مرحلے ہیں۔[13]
قبولیف اعمال کا معیار
«إِلَیہِ یصْعَدُ الْکلِمُ الطَّیبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یرْفَعُہُ: اچھے اور پاکیزہ کلام اس کی طرف بلند ہوتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتا ہے (یا اللہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے)[14] اس آیت کی تفسیر میں آنے والی روایات میں آیا ہے : «الکلم الطیب:یعنی اچھی گفتار سے توحید، نبوت اور ولایت امیر المومین اور دیگر آئمہ کی گواہی مراد ہے اور «والعمل الصالح» سے مراد ان پر قلبی ایمان رکھنا ہے[15] شیخ کلینی کتاب کافی میں لکھتے ہیں: امام صادق(ع) نے اس آیت کے بارے میں فرمایا: اہنے ہاتھ سے اپنے سینے ک طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے ہم اہل بیت کی ولایت مراد ہے۔ پس جس کسی کے سینے میں ہماری ولای نہیں ہے اس کا کوئی عمل خدا اوپر نہیں لے جائے گا یعنی اسے قبول نہیں کرے گا۔[16]
مُردوں سے توسل کی ممنوعیت پر وہابی استدلال
اسی سورت کی 22ویں آیت میں آیا ہے: اور نہ ہی زندے (مؤمنین) اور مردے (کافرین) برابر ہیں۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنوارتا ہے (اے رسول) جو (کفار مردوں کی طرح) قبروں میں دفن ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے۔
وہابی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں: مرحومین سے توسل کرنا چاہے وہ ارواح انبیا اور اولیائے الہی ہی ہوں، باطل ہے۔کیونکہ اس آیت کے مطابق مردے آوازیں نہیں سنتے ہیں اور نہ ہی وہ زندہ انسانوں کی ضرورتوں کو برطرف کر سکتے ہیں۔[17] اس کے مقابلے میں شیعہ علما اور اہل سنت کے بہت سے علما اور صوفی معتقد ہیں کہ اس اس دنیا میں فوت ہونے والے افراد عالم برزخ میں برزخی زندگی رکھتے ہیں۔ قرآن میں اس سے متعلق بہت سی آیات موجود ہیں۔[18] وہ معتقد ہیں کہ (آیت 22 فاطر) میں کفار کو قبروں میں موجود اجساد سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح مردوں کیلئے (اب) ہدایت کوئی فائدہ نہیں رکھتی اور ان کیلئے ہدایت قبول کرنا ممکن نہیں (اسی طرح) گفتار پیامبر(ص) کفار کیلئے کوئی نفع نہیں رکھتی ہے۔[19]
مشہور آیات
- یا أَیہَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَی اللَّہِ وَ اللَّہُ ہُوَ الْغَنِی الْحَمِید ( ۱۵)
ترجمہ:اے لوگو! تم (سب) اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز ہے جو قابلِ تعریف ہے۔
یہ آیت خاص طور پر عُرَفا[20] اور فلاسفہ کے ہاں مورد توجہ رہی ہے اور بعض فلاسفہ اسے معروف برہان: فقر و امکان یا امکان و وجوب کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ جس میں واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے۔[21]
اس آیت کی توضیح میں آیا ہے کہ اس تمام جہان ہستی میں حقیقی بے نیاز اور قائم بالذات صرف ذات خدا ہے بلکہ تمام موجودات مکمل طور پر محتاج ہیں اور وہ تمام انسان بلکہ تمام موجودات اپنے وجود میں مکمل طور پر محتاج اور نیازمند ہیں اور وہ سب اُس مستقل وجود سے اس طرح وابستہ ہیں کہ اگر ایک لحظے کیلئے بھی ان کا رابطہ اس سے قطع ہو جائے تو وہ نہیں ہیں۔[22]
- وَ لا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْری( ۱۸)
ترجمہ:اور کوئی بوجھ اٹھانے والا (گنہگار) کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
یہ آیت عدل الہی کا پیغام دیتی ہے اور آگے چل کر قیامت کے روز سخت حساب کتاب کو بیان کرتی ہے کہ اس دن کوئی کسی دوسرے کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہیں اٹھائے گا ہر چند وہ جس قدر بھی اس سے محبت رکھتا ہو۔[23]
- إِنَّما یخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبادِہِ الْعُلَماء( ۲۸)
ترجمہ: اور اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں بے
تعظیم کے ساتھ کسی سے ڈرنا خشیت ہے۔[24] اس آیت کی تفسیر میں امام سجاد سے منقول ہے: «علم اور عمل باہمی دو صمیمی دوست ہیں، جو خدا کی معرفت رکھتا ہے وہی اس سے ڈرتا ہے اور یہ ڈر اور خوف اسے خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دیتا ہے۔ صاحبان علم اور انکے پیروکار وہ لوگ ہیں کہ جو اچھی طرح سے خدا کی معرفت رکھتے ہیں اور اسی کیلئے اعمال انجام دیتے ہیں اور وہ خدا سے عشق کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد خدا ہے: إِنَّما یخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبادِہِ الْعُلَماءُ».[25] اسی طرح تفسیری اور روائی کتب میں آیا ہے کہ اس آیت میں العلما سے امیر المومنین مراد ہیں۔[26]
فضیلت اور خواص
تفسیر مجمع البیان میں پیامبر(ص) سے مروی روایت کی بنا پر سورہ فاطر کی تلاوت کرنے والے کو قیامت کے دن بہشت کے تین دروازے اپنی جانب بلائیں گے یہاں تک کہ وہ جس دروازے سے وہ چاہے گا بہشت میں داخل ہو جائے گا۔[27] تفسیر نورالثقلین میں نیز امام صادق سے منقول ہے: جو کوئی رات کو اس کی تلاوت کرے گا خدا اس کی محافظت کرے گا اور جو کوئی اسے دن کو تلاوت کرے گا اسے کسی قسم کی کوئی ناراحتی نہیں پہنچے گی، اور خدا اسے دنیا و آخرت میں ایسی خیر سے ہمکنار کرے گا کہ اس نے ایسا سوچا بھی نہیں ہو گا اور نہ اس کی آرزو کی ہوگی۔[28]
متن اور ترجمہ
سورہ فاطر
|
ترجمہ
|
---|
پچھلی سورت: سورہ سبا | سورہ فاطر | اگلی سورت:سورہ یس |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ علیبابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۴، ص۵۵.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۶۲۵.
- ↑ معرفت، مقدمہای بر علوم قرآن، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۸۸
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۴۷
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۴۷
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۴۷
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۶۲۸.
- ↑ «لَعَلَّک باخِعٌ نَفْسَک أَلَّا یکونُوا مُؤْمِنِینَ»
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۵، ص۱۸۵.
- ↑ «رہے ثمود! ہم نے ان کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت پر اندھے پن (گمراہی) کو ترجیح دی۔
- ↑ بحرانی، البرہان، ترجمہ، ج۷، ص۵۷۷.
- ↑ علامہ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۷۰-۷۱؛ ج۱۱، ۴۸۱-۴۸۳. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۰ش، ج۱، ص۱۵۱-۱۵۲.
- ↑ فاطر: ۱۰.
- ↑ رجوع کریں: بحرانی، البرہان، ترجمہ، ج۷، ص۵۷۸.
- ↑ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ ع فِی قَوْلِ اللَّہِ عَزَّ وَ جَلَّ "إِلَیہِ یصْعَدُ الْکلِمُ الطَّیبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یرْفَعُہُ": وَلَایتُنَا أَہْلَ الْبَیتِ وَ أَہْوَی بِیدِہِ إِلَی صَدْرِہِ فَمَنْ لَمْ یتَوَلَّنَا لَمْ یرْفَعِ اللَّہُ لَہُ عَمَلا (کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۳۰، ح۸۵).
- ↑ جریسی، سلسلة فتاوی علماء البلدالحرام، ۱۴۳۲ق، ص۴۵۶؛ فتاوی اللجنۃ، ۱۴۲۴ق، ص۳۱۴.
- ↑ امین، سیدمہدی. مرگ و برزخ از دیدگاہ قرآن و حدیث (تفسیر موضوعی المیزان) آستان قدس رضوی، شرکت بہ نشر، ۱۳۸۹.
- ↑ قویدست، «مسئلہ توسل بہ اموات با نگاہی بہ آیہ ۲۲ سورہ مبارکہ فاطر»، ۱۳۹۲ش، ص۱۵۸-۱۶۴؛ مصلحی، «سماع موتی و رابطہ آن با توسل بہ ارواح اولیای الہی»، ۱۳۹۲ش، ص۱۱۷-۱۱۸.
- ↑ رک: امین، مخزن العرفان، ج۱۰، ص۳۴۲.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۲۲۲.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۲۲۰.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۲۲۵.
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات، بہ نقل از: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱۸، ص۲۴۷.
- ↑ عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، ج۴، ص۳۵۹.
- ↑ رک: بحرانی، البرہان، ج۴، ص۵۴۵.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج۸، ص۶۲۴.
- ↑ عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۴۵.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند، تہران، دارالقرآن الکریم، ۱۴۱۸ق/۱۳۷۶ش.
- امین اصفہانی، سیدہ نصرت، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، تہران، نہضت زنان مسلمان، ۱۳۶۱ش.
- بحرانی، سید ہاشم، البرہان، تحقیق: قسم الدراسات الاسلامیہ موسسۃ البعثۃ ـ قم، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ق.
- بحرانی، سیدہاشم، البرہان، ترجمہ رضا ناظمیان، علی گنجیان و صادق خورشا، تہران، کتاب صبح، نہاد کتابخانہہای عمومی کشور، ۱۳۸۸ش.
- جریسی، خالد بن عبدالرحمان، سلسلۃ فتاوی علماء البلدالحرام، قسم العقیدۃ، باب الثامن، ریاض، مکتبۃ ملک فہد الوطنيۃ، چاپ یازدہم، ۱۴۳۲ق/۲۰۱۱م.
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
- ہطباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ سیدمحمدباقر موسوى ہمدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامى جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چ۵، ۱۳۷۴ش.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ تصحیح فضلاللہ یزدی ہطباطبائی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
- عروسی حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، تحقیق: سید ہاشم رسولی محلاتی، قم، انتشارات اسماعیلیان، چ۴، ۱۴۱۵ق.
- علیبابایی، احمد، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چ۱۳، ۱۳۸۲ش.
- قویدست، کریمہ، مسألہ توسل بہ اموات با نگاہی بہ آیہ ۲۲ سورہ مبارکہ فاطر، سراج منیر، سال سوم، بہار ۱۳۹۲، ش۹.
- کلینی، محمد بنیعقوب، الکافی، محقق: علیاکبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، چ۴، ۱۴۰۷ق.
- فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء، المحقق: احمد بن عبدالرزاق الدویش، دارالمؤید للنشر والتوزیع، ریاض، ۱۴۲۴ق.
- معرفت، محمدہادی، مقدمہای بر علوم قرآن: ترجمہ التمہید فی علوم القرآن، جواد ایروانی، قم، انتشارات التمہید، ۱۳۸۸ش.
- مصلحی، صادق، سماع موتی و رابطہ آن با توسل بہ ارواح اولیای الہی، سراج منیر، بہار۱۳۹۲ش، سال سوم، ش۹.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چ۱، ۱۳۸۰ش.